تحریک انصاف کے نو رتن
تحریک انصاف کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک رتن موجود ہے ویسے تو ہر سیاسی جماعت میں کچھ انمول رتن ہوتے ہیں جو اپنی حرکتوں اور باتوں سے آئے روز اپنی جماعت کو شرمندہ کرواتے ہیں تاہم تحریک انصاف اس معاملے میں سب پر بازی لے گئی ہے اب ایک نیا رتن موسمیات کی وزیر مملکت زرتاج گل کی شکل میں سامنے آیا ہے سیانے تو بہت پہلے کہہ گئے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو خاص طور پر جب کسی معاملے کا علم نہ ہو تو بہتر ہے کوئی بونگی مارنے کی بجائے زبان بند رکھو، اب پی ٹی وی پر بیٹھ کر زرتاج گل نے کورونا کی جو تعریف فرمائی ہے، اسے کہیں احمقانہ حوالے سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل نہ کر لیا جائے۔ محترمہ نے Covid 19 کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اس کا مطلب کورونا کے 19 نکات ہیں اور ہر ملک میں یہ
کسی بھی نکتہ کے ساتھ داخل ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کورونا ایک فلو ہے اور کچھ نہیں۔ یہ بات تو عالمی ادارہئ صحت کو بھی نہ سوجھی ہو گی کہ Covid کے ساتھ جو 19 لکھا جاتا ہے، وہ اس کے اُنیس نکات کی وضاحت کرتا ہے۔ آج تک تو لوگ یہی سمجھتے رہے کہ اس کا مطلب جدید کورونا وائرس ہے جو 2019ء میں دنیا پر حملہ آور ہوا۔ مگر زر تاج گل یہ ماننے کو تیار نہیں بلکہ اس وائرس کو 19 نکاتی وائرس قرار دے رہی ہیں۔
حیرت تو اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ پی ٹی وی جیسے قومی ادارے پر ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑی جاتی ہیں اور کوئی روکنے والا نظر نہیں آتا۔ کیا کسی حکومتی شخصیت کے ایسے احمقانہ خیالات آن ائر جانا چاہئیں تھے جن سے نہ صرف حکومت کی جگ ہنسائی ہو بلکہ دنیا میں یہ پیغام جائے کہ پاکستان میں حکومتی وزیر بھی کس قدر نا بلد ہیں کہ انہیں اس اصطلاح کا مفہوم بھی معلوم نہیں جو اب بچے بچے کی زبان پر آ چکی ہے۔ لگتا ہے پی ٹی وی میں بیٹھے ہوئے ارباب اختیار یا تو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری بھول چکے ہیں یا پھر وہ حکومتی شخصیات سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ان کی صریحاً غلط اور احمقانہ باتوں پر بھی انہیں روک نہیں سکتے۔ اس سے پہلے محترم
ایک بار یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پاکستان کے موسمی حالات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس سے بھی پہلے انہوں نے عمران خان کی مسکراہٹ کو قاتلانہ قرار دیا تھا، ایسی باتوں سے صاف لگتا ہے کہ کپتان نے چن چن کر ایسے کھلاڑی اپنی کابینہ میں رکھے ہیں، جو خوشامد میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اور جہالت میں اعلیٰ اسناد یافتہ ہوں۔ وگرنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وزراء بونگی پہ بونگی مارتے چلے جائیں اور ان سے باز پرس نہ ہو
میرے خیال میں تحریک انصاف کے وزراء نے حکومتی امیج کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا چھوڑی کہیں بڑھک بازی، کہیں بلند بانگ دعوؤں، کہیں زمینی حقائق سے ماورا باتوں اور کہیں خلاف منطق پھلجھڑیوں نے تحریک انصاف کو ایک مزاحیہ جماعت بنا دیا ہے۔ یہ کام حکومت میں آنے کے فوراً بعد شروع ہوا۔ اور اب تک بڑی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ سب کو یاد ہوگا کہ تحریک انصاف کے ایک انمول رتن فواد چودھری نے حکومت کے ابتدائی دنوں میں یہ درفطنی چھوڑی تھی کہ وزیر اعظم بنی گالا سے وزیر اعظم ہاؤس جانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں جس پر صرف پچپن روپے فی کلو میٹر خرچ آتا ہے۔ یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ خود فواد چودھری کو اس سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔ دنیا بھر کے ماہرین حیران رہ گئے کہ وزیر اعظم
پاکستان کے زیر استعمال وہ کون سا ہیلی کاپٹر ہے جو اتنا کم پٹرول خرچ کرتا ہے۔ پھر ایک دن وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ دو ہفتے بعد ملک میں وہ خوشحالی آنے والی ہے کہ لوگ دنگ رہ جائیں گے۔ ایسی بات کوئی بہت جرأت مند یا ہوش و حواس سے عاری شخص ہی کر سکتا ہے کہ انتہائی مشکل حالات میں گھرے ملک کے لئے دو ہفتوں میں خوشحالی آنے کی پیش گوئی کر دے۔ شاید وہ تحریک انصاف کے ان وعدوں کا جواب دینا چاہتے تھے جو پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کے حوالے سے کئے گئے تھے۔
اب تحریک انصاف کے پاس نورتنوں کی ایک نئی کھیپ بھی آ گئی ہے جن میں سب سے نواں نکور رتن شہباز گل ہیں۔ ان کی اول و آخر کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح وزیر اعظم عمران خان کو زمین پر خدائی اوتار بنا کر پیش کریں۔ حال ہی میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بنی گالا کے سارے اخراجات وزیر اعظم عمران خان اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں آج کے دور میں اور وہ بھی پاکستان میں کسی حکمران کے بارے میں ایسے دعوے کرنا سوائے اپنا مضحکہ اڑوانے کے اور کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ ایسے دعووؤں کے درمیان جب یہ خبر آتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو دورہئ لاڑ کانہ کے دوران درجنوں ڈشوں پر مشتمل کھانا دیا گیا تو اس کی گونج زیادہ شدت کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔ یہ کیسے وزراء ہیں کہ جنہیں اپنے طور پر یہ سمجھ بوجھ نہیں کہ انہوں نے کہاں
بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے۔ یہ کام بھی وزیر اعظم کو کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً حال ہی میں جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کیس کا فیصلہ آیا تو وزیر اعظم کو فوراً یہ ہدایت جاری کرنی پڑی کہ وزراء اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ ابھی یہ وزراء انہیں خوش کرنے کے لئے الٹے سیدھے بیانات دیں گے اور ماحول کشیدہ ہو جائے گا۔ ماضی میں کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے نورتنوں کی فضول بیان بازی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے روکنے کا حکم دیا۔
حکومت کے چند وزراء کو چھوڑ کر باقی کا عوام میں امیج مخولیہ کرداروں جیسا ہے۔ جن کا اول و آخر مقصد یہ ہے کہ اپوزیشن کے رہنماؤں پر ایسی جگتیں ماری جائیں جو وزیر اعظم کی نظر میں ان کا قد اُونچا کر دیں۔ اب مراد سعید جیسے وزراء تحریک انصاف کے اوپننگ بیٹسمین بنے ہوئے ہیں جن کا کام صرف یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف پر تنقید کے نشتر چلائیں۔ ایسی زبان استعمال کریں جو شائستگی سے ماورا ہو۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو درحقیقت اپنے قائد عمران خان کو اپوزیشن کی توپوں کے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں جواب میں کوئی بھی مراد سعید پر تنقید نہیں کرتا بلکہ سب عمران خان کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے میں مریم اورنگ زیب ہی کافی ثابت ہوتی ہیں جو عمران خان کے مختلف القابات و خطابات ایجاد کرنے میں
خاصی مہارت رکھتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نورتن نوازشریف کے پاس بھی تھے، اور وہ بھی یہ دیکھ کر خوش ہوتے تھے کہ اپوزیشن پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہے ہیں لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ اپنے نورتنوں کو اپوزیشن کے ساتھ قومی اداروں پر تنقید سے نہ روک سکے اور معاملات ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ عمران خان ابھی اس لحاظ سے بچے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عدلیہ اور فوج کے بارے میں اپنے وزراء کی زبان بندی کر رکھی ہے جس کی حالیہ مثال قاضی عیسیٰ فائز کے معاملے پر وزراء کو بیان بازی سے روکنا ہے۔
کسی بھی نکتہ کے ساتھ داخل ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے یہ بھی کہا کہ کورونا ایک فلو ہے اور کچھ نہیں۔ یہ بات تو عالمی ادارہئ صحت کو بھی نہ سوجھی ہو گی کہ Covid کے ساتھ جو 19 لکھا جاتا ہے، وہ اس کے اُنیس نکات کی وضاحت کرتا ہے۔ آج تک تو لوگ یہی سمجھتے رہے کہ اس کا مطلب جدید کورونا وائرس ہے جو 2019ء میں دنیا پر حملہ آور ہوا۔ مگر زر تاج گل یہ ماننے کو تیار نہیں بلکہ اس وائرس کو 19 نکاتی وائرس قرار دے رہی ہیں۔
حیرت تو اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ پی ٹی وی جیسے قومی ادارے پر ایسی ایسی درفنطنیاں چھوڑی جاتی ہیں اور کوئی روکنے والا نظر نہیں آتا۔ کیا کسی حکومتی شخصیت کے ایسے احمقانہ خیالات آن ائر جانا چاہئیں تھے جن سے نہ صرف حکومت کی جگ ہنسائی ہو بلکہ دنیا میں یہ پیغام جائے کہ پاکستان میں حکومتی وزیر بھی کس قدر نا بلد ہیں کہ انہیں اس اصطلاح کا مفہوم بھی معلوم نہیں جو اب بچے بچے کی زبان پر آ چکی ہے۔ لگتا ہے پی ٹی وی میں بیٹھے ہوئے ارباب اختیار یا تو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری بھول چکے ہیں یا پھر وہ حکومتی شخصیات سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ان کی صریحاً غلط اور احمقانہ باتوں پر بھی انہیں روک نہیں سکتے۔ اس سے پہلے محترم
ایک بار یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پاکستان کے موسمی حالات بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ اس سے بھی پہلے انہوں نے عمران خان کی مسکراہٹ کو قاتلانہ قرار دیا تھا، ایسی باتوں سے صاف لگتا ہے کہ کپتان نے چن چن کر ایسے کھلاڑی اپنی کابینہ میں رکھے ہیں، جو خوشامد میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اور جہالت میں اعلیٰ اسناد یافتہ ہوں۔ وگرنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وزراء بونگی پہ بونگی مارتے چلے جائیں اور ان سے باز پرس نہ ہو
میرے خیال میں تحریک انصاف کے وزراء نے حکومتی امیج کو خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا چھوڑی کہیں بڑھک بازی، کہیں بلند بانگ دعوؤں، کہیں زمینی حقائق سے ماورا باتوں اور کہیں خلاف منطق پھلجھڑیوں نے تحریک انصاف کو ایک مزاحیہ جماعت بنا دیا ہے۔ یہ کام حکومت میں آنے کے فوراً بعد شروع ہوا۔ اور اب تک بڑی سرعت کے ساتھ جاری ہے۔ سب کو یاد ہوگا کہ تحریک انصاف کے ایک انمول رتن فواد چودھری نے حکومت کے ابتدائی دنوں میں یہ درفطنی چھوڑی تھی کہ وزیر اعظم بنی گالا سے وزیر اعظم ہاؤس جانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں جس پر صرف پچپن روپے فی کلو میٹر خرچ آتا ہے۔ یہ بات اتنی مشہور ہوئی کہ خود فواد چودھری کو اس سے جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔ دنیا بھر کے ماہرین حیران رہ گئے کہ وزیر اعظم
پاکستان کے زیر استعمال وہ کون سا ہیلی کاپٹر ہے جو اتنا کم پٹرول خرچ کرتا ہے۔ پھر ایک دن وفاقی وزیر فیصل واؤڈا نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ دو ہفتے بعد ملک میں وہ خوشحالی آنے والی ہے کہ لوگ دنگ رہ جائیں گے۔ ایسی بات کوئی بہت جرأت مند یا ہوش و حواس سے عاری شخص ہی کر سکتا ہے کہ انتہائی مشکل حالات میں گھرے ملک کے لئے دو ہفتوں میں خوشحالی آنے کی پیش گوئی کر دے۔ شاید وہ تحریک انصاف کے ان وعدوں کا جواب دینا چاہتے تھے جو پانچ سال میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کے حوالے سے کئے گئے تھے۔
اب تحریک انصاف کے پاس نورتنوں کی ایک نئی کھیپ بھی آ گئی ہے جن میں سب سے نواں نکور رتن شہباز گل ہیں۔ ان کی اول و آخر کوشش یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح وزیر اعظم عمران خان کو زمین پر خدائی اوتار بنا کر پیش کریں۔ حال ہی میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ بنی گالا کے سارے اخراجات وزیر اعظم عمران خان اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں آج کے دور میں اور وہ بھی پاکستان میں کسی حکمران کے بارے میں ایسے دعوے کرنا سوائے اپنا مضحکہ اڑوانے کے اور کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ ایسے دعووؤں کے درمیان جب یہ خبر آتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو دورہئ لاڑ کانہ کے دوران درجنوں ڈشوں پر مشتمل کھانا دیا گیا تو اس کی گونج زیادہ شدت کے ساتھ سنائی دیتی ہے۔ یہ کیسے وزراء ہیں کہ جنہیں اپنے طور پر یہ سمجھ بوجھ نہیں کہ انہوں نے کہاں
بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے۔ یہ کام بھی وزیر اعظم کو کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً حال ہی میں جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کیس کا فیصلہ آیا تو وزیر اعظم کو فوراً یہ ہدایت جاری کرنی پڑی کہ وزراء اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ ابھی یہ وزراء انہیں خوش کرنے کے لئے الٹے سیدھے بیانات دیں گے اور ماحول کشیدہ ہو جائے گا۔ ماضی میں کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے نورتنوں کی فضول بیان بازی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے روکنے کا حکم دیا۔
حکومت کے چند وزراء کو چھوڑ کر باقی کا عوام میں امیج مخولیہ کرداروں جیسا ہے۔ جن کا اول و آخر مقصد یہ ہے کہ اپوزیشن کے رہنماؤں پر ایسی جگتیں ماری جائیں جو وزیر اعظم کی نظر میں ان کا قد اُونچا کر دیں۔ اب مراد سعید جیسے وزراء تحریک انصاف کے اوپننگ بیٹسمین بنے ہوئے ہیں جن کا کام صرف یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف پر تنقید کے نشتر چلائیں۔ ایسی زبان استعمال کریں جو شائستگی سے ماورا ہو۔ انہیں یہ نہیں معلوم کہ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو درحقیقت اپنے قائد عمران خان کو اپوزیشن کی توپوں کے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں جواب میں کوئی بھی مراد سعید پر تنقید نہیں کرتا بلکہ سب عمران خان کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے میں مریم اورنگ زیب ہی کافی ثابت ہوتی ہیں جو عمران خان کے مختلف القابات و خطابات ایجاد کرنے میں
خاصی مہارت رکھتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نورتن نوازشریف کے پاس بھی تھے، اور وہ بھی یہ دیکھ کر خوش ہوتے تھے کہ اپوزیشن پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگا رہے ہیں لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ وہ اپنے نورتنوں کو اپوزیشن کے ساتھ قومی اداروں پر تنقید سے نہ روک سکے اور معاملات ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ عمران خان ابھی اس لحاظ سے بچے ہوئے ہیں۔ انہوں نے عدلیہ اور فوج کے بارے میں اپنے وزراء کی زبان بندی کر رکھی ہے جس کی حالیہ مثال قاضی عیسیٰ فائز کے معاملے پر وزراء کو بیان بازی سے روکنا ہے۔
Comments
Post a Comment